تحریر۔۔۔ نقیب ہیکل زئی ، پشین ، فری لانس جرنلسٹ
naqeebpishin@gmail.com— 03337793666
نوٹ ۔۔ 15 اکتوبر 2016 کو لکھا گیا وہ آرٹیکل جسے کویٹہ کے تمام بڑے اخبارات نے انجانے خوف کے بنیاد پر چھاپنے سے انکار کردیا تھا جسے اب سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا گیا ہے۔۔۔
اندرون بلوچستان کی صحافت اور صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کی صحافت میں زمین اور آسمان کا فرق ہے ، یہ تضاد کوئٹہ کے چند قبضہ گر ، این جی اوز کے خفیہ ماہواری ملازمین نے جان بوجھ کر پیدا کررکھا ہے ، یہ گیپ ان کی اجارہ داری کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے ، یہاں پشتون بلوچ براہوی ، ہزارہ برادری کے مقامی صحافیوں پرزمین تنگ کردی گئی ہے ان کے ہاتھ سے قلم چھین کر کلاشنگوف تھمانے کی سازش کئی دھائیوں سے جاری ہے ، اس کے رنگ ڈنگ طور طریقے مختلف ادوار میں مختلف رہے ہیں ، استحصالی طبقہ ہر پیشے میں ہے سو یہاں بھی قبضہ جمائے براجماں ہیں، اور ان ابن الوقت بارشی مینڈکوں کو وقت کے حکمرانوں کی تائید و حمایت یا آشیرواد حاصل ہے، چند نام نہاد صحافی ان این جی اوز کے پیرول پر ہیں جہازوں میں سفر کرتے ہیں فنڈ کا آزادانہ استعمال کرتے ہیں ملک دشمن عناصر کے ساتھ رابطے میں ہیں، بعض غدار جو بیرون ملک پناہ لیے ہوئے ہیں ان سے رابطے میں اور ملک کے خلاف سازش میں مصروف ہیں ، دونوں طرف سے مال بنا رہے ہیں ، اندرون بلوچستان صحافیوں کو نہ تنخواء دی جاتی ہے نہ کیمرا نہ صحافت کے جملہ ضروری بنیادی سازو و سامان نہ کوئی تربیت ورکشاپ نہ لٹریچر اور نہ جانی و مالی تحفظ، جبکہ کوئٹہ میں موجود یہ صحافت کے خودساختہ پنڈت اپنی لکشمی ماتھاکی پوچا میں مگن ہیں دھن ہے کہ بس لوٹے جارہے ہیں ، آزادی صحافت آزادی اظہار رائے کے خوشنما و دلفریب نعروں کی شور میں کونسے مخفی بدبودار جذبات کارفرما ہیں ہم سے پوشیدہ نہیں ہیں، پریس کلب کے عہدیداران ہر ایک الگ الگ ایک اسکینڈل ہے ہم آج بڑے بڑے اسکینڈل کا پردہ فاش نہیں کرنے جارہے ہیں کیونکہ بات بہت دور نکل جائے گی ، ان کا احتساب قدرت اور وقت خود کرئے گی ہم نیچے کی سطح پر سرسری عمومی جائزہ لینگے ،مجھے پرانے پریس کلب کی عمارت کے دن رات یاد آرہے ہیں جب ہم وہاں بھرپور نوجوانی کے دور میں جاتے تھے پریس کلب کوئٹہ کی نئی عمارت اگر چہ خوبصورت ہے مگر ان کے مکین ان کے رہائشی اپنا کردار کھوچکے ہیں ، بات ہورہی تھی ایک عام رپورٹر کی زندگی کی ، غریب رپورٹر سارا دن محنت کرکے رپورٹ بناتا ہے اور اگلے دن اخبارات میں سرخی کیپشن انٹرو ، بائی لائن سورس اور متن کچھ کا کچھ بن جاتا ہے سارا کریڈٹ کوئٹہ کے صحافی اچک لیتے ہیں بچ گیا بھوسا وہ بے شک مقامی رپورٹر نوش فرمائے ، ایک اصل لوکل رپورٹر کی کیا زندگی ہوتی ہے کبھی کسی نے اس پر ریسرچ کی ہے اس کے کیا مشکلات ، مسائل امیدیں ہوتی ہیں کبھی کسی نے سوچا ہے ، میں تو کہتا ہوں کہ لوکل رپورٹر کی زندگی کتے سے بھی بدتر ہے ، ایک طرف سیاستدان کا چمچا بنا رہتا ہے دوسری طرف حولدار کا تابعدار بن چکا ہوتا ہے کیونکہ ایسا نہیں کرے گا تو ڈرگ مافیا ، لینڈ مافیا کے غنڈے ان کو نوچ لینگے، وہ ہر وقت ہر سیاسی پارٹی کے الگ الگ نشانے پر ہوتا ہے ، ٹریفک سارجنٹ کبھی بھی اس کی موٹر سائیکل قبضے میں لے سکتا ہے ، پٹواری سے لیکر ایک ڈاکٹر اساتذہ ، کلرک ایسوسی ایشن اور تاجروں کی چمچہ گیری میں رہتا ہے ہر دن اس کا عزت نفس مجروع ہوتا رہتا ہے ، کئی بار کیمرا توڑ دیا جاتا ہے ، دھمکیاں ملناروزانہ کا کام ہے ،خود میرے خلاف ایک وقت شہر میں وال چاکنگ کی گئی ، سوشل میڈیا پر روزانہ ماں بہن کی گالیاں کھانا پڑتی ہے ، کئی بار قلم گروی رکھ کر ضمیر پاؤں کے نیچے روندنا پڑتا ہے ، کسی طرف سے بھی خوشنما خبریں نہیں مل رہی ہوتی ہے معاشرے کے سلگتے مسائل پر قلم اٹھائے تو اخبارات کے مالکان سے ملکر سیاستدان تاجر تنظیمیں ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی مرضی سے ان کے خبروں کو اشتہارات و پپلسٹی کے ساتھ بطور پروپیگنڈہ استعمال کرجاتی ہیں، کھوجی کتے کی مانند سونگتا ہوا کوئی اہم اسٹوری کوئی لیڈ مل جائے تو اگلے دن اپنا ہی اخبار پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ وہ تو اخبار کی پالیسی ہی نہیں تھی ، نیوز ایڈیٹر سب ایڈیٹر نے اپنے قلم کا بھیانک کھیل رچایا تھاجو اصل میں دیکھا جائے تو بس مفادات ہی کا کورگھ دھندہ تھا ، سب کچھ بکتا ہے سب کچھ چلتا ہے اور بچارا لوکل رپورٹر پگوڑے کھاکر پھر ایک نئے اسٹوری لیڈ کی تلاش میں نکل جاتا ہے یہ تو سرسری خاکہ ہے ایک اصل باضمیر لوکل رپورٹر کی اور دو نمبر لوکل رپورٹرکا خلاصہ آگے جاکر کرونگا، کوئٹہ کے ان قبضہ مافیا نام نہاد صحافیوں کا مقابلہ صرف قلم کی وار سے ممکن ہے ، اگر بلوچستان کے مقامی اخبارات و رسائل ہمت دکھائے تو ان مصنوعی نمائندوں کی چکاچوند ماند پڑسکتی ہے اور شکر ہے کہ ایسا ہورہا ہے جس کا سب سے بڑا کریڈٹ میں اندرون بلوچستان کے اخبارات کے اجراء پر ان کے تمام کارکنوں کے علاوہ باہمت باضمیر مالکان کو دونگا جنہوں نے اپنے خون پسینے کی حق حلال روزی کو بعض سیاستدانوں کی طرح بیرون ملک منتقل کرکے آف شورکمپنی میں نہیں لگایا بلکہ قوم کی شعور و آگاہی کی خاطر کمر باندھ کر قلمی جہاد کے لیے صحافت کا پیشہ اختیار کرکے میدان خار زار میں کود پڑے ہیں، بقول اکبر الہ آبادی کے کہ
کینچوں نہ کمانوں کو ، نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو ، اخبار نکالو۔۔۔!
اندرون بلوچستان ہر ضلع سے تقریباً اخبارات رسائل نکل رہے ہیں جو قوم کی درست سمت میں رہنمائی کررہے ہیں ، اگر چہ ڈی پی آر ، پریس کونسل پریس کلب کوئٹہ ، یونین آف جرنلسٹ پی آئی ڈی ، میڈیا چینل ، میڈیا سے متعلق این جی اوز اور سیاسی پارٹیوں میں موجود بعض مفاد پرست اور لوکل اخبارات سے بیر رکھنے والے عناصر کے عزائم سب پر عیاں ہیں کہ وہ نہیں چاہتے کہ لوکل پریس پروان چڑھے جس سے ان کی ریت پر قائم عمارت بکھر جائے ، مقامی اخبارات و رسائل کو ان کا جائز حق اشتہارات نہ دے کر ان کا معاشی قتل کیا جارہا ہے ( لوکل پریس کتنے دباؤ میں ہے اس کا اندازاہ آپ اس بات سے لگائے کہ پچھلے چند سالوں میں یہاں شام کے سات اخبارات ایک دو سال چلنے کے بعد مارنینگ فارمیٹ میں بدل گئے ، جن میں ناظم نیوز ، ہمت ، لشکر،دنیا، مشرق ایونیگ، اطلاع عام ، کوژک نیوز، کوئٹہ میں شام کے اخبارات کی سخت ضرورت ہے مگر چونکہ اشتہارات نہیں ملتے اس لیے یہ ایک رسک ہے) صرف چند منظور نظر اخبارات کو نوازنے کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا ، لیکن ان پر واضع ہو کہ لاکھ رکاوٹوں کے باوجود لوکل پریس اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کے لیے تیار ہے ، انہوں نے اوچھے ہھتکنڈوں کے ذریعے لوکل پریس کو ہراساں کیا مگر کوئی وار ابھی تک کارگر ثابت نہ ہوسکا۔۔۔!
وہ تو یہ کہئے، سخت جاں ہم تھے کہ ،وار سہ گئے
تم نے مگر نشانہ ، تان کر ایک بھی تیر خطا نہیں کیا
یہ شاہین پرواز کرے گا، وہ لاکھ بند باندھے یہ پشتہ یہ بند ھ ضرور ٹوٹے گا، آج اگرچہ یہ متکبر پاؤں زمین پر نہیں رکھتے مگر وہ سحر بس ہونے کو ہے کہ جب چین کی بانسری بجانے والے پاؤں سر پر رکھ کر بھاگ رہے ہونگے ، ہمیں تو معلوم ہے کہ بہتی کنگا میں کس کس نے ہاتھ دھویا ہے، پریس کانفرنس اور ہال کی بکنگ کیسے کن شرائط پر کی جاتی ہے ، ری فریش منٹ کا کیسے انتظام ہوتا ہے کون پیسے بٹور رہا ہے ، کن سیاسی پارٹیوں اور اداروں کو فری اسپیس دیا جاتا ہے ، اندر سے کچھ باہر سے کچھ نظر آنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے ، اب تو پریس کانفرنس بھی ایک بھونڈا مذاق بن گیا ہے کچھ لوگ آتے ہیں جن کے سامنے کوئی صحافی نہیں بیٹھا ہوتا صرف کیمرے لگے ہوتے ہیں جن کی ریکارڈنگ STOP پر یا PAUS پر ہوتی ہے کچھ اوٹ پٹانگ سوالات کا تبادلہ ہوتا ہے جو رٹے رٹائے جملے ہوتے ہیں اور آخر میں کچھ تصویروں کا فلش روشنی ، اور پریس کانفرنس والوں سے کہہ دیا جاتا ہے کہ پریس ریلیز کی پچاس کاپیاں دے جائے جو پریس کانفرنس کے رقم کے علاوہ ہوں، بعد میں کوئٹہ کے سب سے خراب بیکری کے کیک رس جو عید کے دوران رہ گئے تھے چینگی ہوٹل کے چائے کے ساتھ زبردستی کھلائے جاتے ہیں، پریس کانفرنس میں صحافی اس لیے موجود نہیں ہوتے کیونکہ انہوں نے وزیروں کی تقاریب میں جاکر خصوصی چمچہ گیری جو کرنی ہوتی ہے ، کبھی کبیر بلڈینگ میں نیوز ایجنسی چلانے والا بندہ (جس کی میں کئی بار بولتی بند کراچکا ہوں آج کل ایک ٹی وی چینل کا بیورو چیف بنا پھرتا رہتا ہے ، ٹی وی چینل والوں کو بھی کوئٹہ میں کیا کیا مسخرے مل گئے ہیں ) میری موجودگی میں ایک وزیر مولوی صاحب سے فون پر کہہ رہا تھا کہ جناب آج کے اخبارات میں ، میں نے آپ کا بیان خود ہی سے شائع کرادیا ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں جلد شریعت بل منظور کرائینگے ، وزیر مولوی صاحب نے بھی خوش ہوتے ہوئے کہا شاباس میرے نام سے کبھی کبھی شریعت اور اسلام کے حوالے سے بیانات شائع کراتے رہنا، تم کو تو معلوم ہے ہم دوروں پر نکلے ہیں مصروف ہیں ۔۔۔ یہ آڈٹ والے بھی عجیب ہیں ایک سخت ایماندار آڈٹ آفیسر سے پریس کلبوں اور ڈی پی آر کی خطیر رقم کا آڈٹ کرایا جائے تو پتہ چلے گا کہ اصل رپورٹر اصل صحافیوں اور مقامی اخبارات کا حق کہاں کہاں خرچ ہورہا ہے ،ہماری بھی نظر ہے بعض ان صحافیوں پر جو پریس کلبوں میں نشے میں دھت بیٹھے رہتے ہیں مجھے تو ان بعض نام نہاد رپورٹروں کے چہروں پر پھٹکار برستے نظر آرہی ہے جبکہ کوئٹہ کے صحافی ان کو سنیئر صحافی کا درجہ دیتے ہیں، حیرت ہے ،مجھے تو مدح سرائی نہیں آتی، دوستوں خیال رہے کہ دنیا بہت آگے جاچکی ہے سوشلستان کا دور ہے اب دوسرے دن اخبار کا انتظار نہیں کرنا پڑتا ہے ٹویٹر اور فیس بک کے زمانے میں ایک گھنٹے کے اندر اندر سب معلومات قارئیں عوام شائقین تک پہنچ جاتی ہے مقابلے کے اس دور میں ان خڑوس صحافیوں جسے انگلش میں ڈیڈ ہوڈ بوسیدہ لکڑی کہتے ہیں ان سے جان چھڑائے ، یہ ایک روشن مثال اور کردار کے غازی ثابت نہیں ہوئے ہیں بلکہ ان کے مذموم مقاصد سب پر عیاں ہیں اپنے مراعات اپنے نفس کے چکر میں گرفتاریہ مفاد پرست میر جعفر میر صادق بن چکے ہیں یہ آنے والے نوجوان صحافیوں کے لیے خاص کر جنہوں نے لاکھوں روپے خرچ کرکے ایم اے جرنلزم کی ڈگری لی ہے ان کے لیے ایک روشن باکردار مثال نہیں بلکہ اندھرے سے الحاق و اتحاد کاتاریک گمنام رستہ دکھارہے ہیں ،جامعہ بلوچستان کے شعبہ میڈیا و جرنلزم کے نئے صحافی طلباء و طالبات ان فرسودہ خیالات کے مالک صحافیوں پر ان کی سوچ و رویے پر افسوس ہی کرتے رہتے ہیں مجھے یاد ہے کہ جب میں طالبان کے قندہار پر حملے اور کابل پر قبضے کے وقت کوئٹہ کے ایک بہت بڑے اخبار (جو پریس اور سرکولیشن کے حساب سے دوسرے نمبر پرتھے ) میں سب ایڈیٹر کے طور پر فرائض سرانجام دے رہا تھا تب اخبار کے ایڈیٹر اور مالک نے اپنے آفس میں بلاکر مجھے ایک اہم کالم لکھنے پر مبارکباد دی اور میری تنخواء میں پانچ سو روپے کے اضافے کا اعلان کیا ،حلانکہ دونوں ٹُن تھے، میری خوشی کی انتہا نہ رہی لیکن جلد ہی اخبار کے چیف رپورٹر (جو کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ سے گھبرا کرمیدان چھوڑ گئے اورآج کل لاہور میں ایک بہت بڑے ٹی چینل کے کاپی ٹیکر ایڈیٹر ہیں) نے میرے خلاف مالکان سے احتجاج کیا اور کہا کہ ہم کئی دہائیوں سے اس اخبار کے لیے کام کررہے ہیں ہماری ماہوار تنخواء میں تو کبھی اضافہ نہیں ہوا اور یہ کل کے چورے کے لیے مراعات کا اعلان ، الگ کمرہ ٹیلیفون ٹی وی سیٹ ، مگر جو ہونا تھا وہی ہوا مالکان اور ایڈیٹر نے انہیں خوب نقد سنائی اور کہا کہ لڑکا محنت کررہا ہے ادارئے کی بہتری کے لیے اس کی حوصلہ آفزائی تو کرنی تھی ، واقع بتانے کی نوبت اس لیے آئی کہ ان فرسودہ ذہن کے صحافیوں نے نوجوان مرد و خواتین صحافیوں کے لیے پریس کلب کے راستے بند کردے ہیں مختلف طریقوں سے نہ صرف نوجوان بے روزگار رپورٹروں بلکہ اب تو فی میل جرنلسٹ کی بھی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے ، دوسری طرف افسوس ہے کہ سابقہ صوبائی وزیر اطلاعات کے اپنے علاقے ہرنائی پریس کلب کی کھنڈرات والی تصویر سوشل میڈیا میں وائر کر کے کہاں کہاں موصوف کی جگ ہنسائی کا باعث نہ بنی ، کہاں گئے قلم اور کتاب کو عام کرنے والے ،ایسے میں چمن کے مقامی مذاحیہ آرٹسٹ حسن اچکزئی کی وہ ویڈیوز تو بہت مشہور ہوگئی ہیں کہ جس میں گلستان کے سکولوں کی حالت زار کو مذاحیہ انداز میں سوشل میڈیا پر سراہا جارہا ہے ، مقامی صحافی ایک واضع متعین شدہ منزل کے حصول کے لیے اگر متحد ہوجائے تو قبضہ گردیوار خود بہ خود گر جائے گی اسے دھکا دینے کی نوبت بھی نہیں آئے گی ۔۔۔!
حالیہ دنوں میں مقامی صحافیوں رپورٹروں نے جان کی شہادتیں دی ہیں قربانیاں دی ہیں ، فرض کی آدائیگی میں ایک مزدور کارکن کی مانند اپنے پسینے کے ساتھ ساتھ خون بہایا ہے ، مگر افسوس بعض مفاد پرستوں نے اس پر بھی دکانیں چمکائی ہیں، انہوں نے اس ایشو پر بڑے بڑے مراعات حاصل کی ہیں ، ملکی و بیرونی این جی اوز سے خوب کمائی کی ہے ، ڈالروں سے ان کے اکاؤنٹ بھر چکے ہیں ، صحافیوں کیلئے پلاٹوں کی تقسیم کا معاملہ چل رہا ہے ، صحافیوں کے فنڈ ،حج فنڈ کی تاک میں ہیں، کاش کوئی ایف آئی اے کوئی نیب ان کالی بھیڑوں کا بھی احتساب کرے ، کوئٹہ کے بعض اور اندرون بلوچستان کے کئی صحافی ایسے بھی ہیں جو اس وقت لندن آسٹریلیا، آمریکہ اور جرمنی میں یہاں کے شہید صحافیوں کی قربانیوں کو خوب مزے لے لے کر کیش کرارہے ہیں اور یہی کورکھ دھندہ یہاں کوئٹہ میں بھی بعض قبضہ گیر روا رکھے ہوئے ہیں ، جس طرح آمریکی صحافی ڈینل پرل کی قتل سے لیکر صحافی ولی خان بابر کی شہادت میں لندن کے ٹیلی فونگ بابا کا ہاتھ تھا اور سازش کے تحت الزام اسلام پسند طبقے پر لگایا گیا تاکہ عالمی سطح پر اسلام کے خلاف یہودیوں کے پیدا کردہ زہر افشانی کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے کیش کرایا جاسکے ، اسی طرح بلوچستان میں بھی صحافیوں کے شہادتوں کو اپنے بینک بیلنس اور مراعات کے لیے کیش کرایا جاتا ہے ، غور کی بات ہے کہ کالعدم تنظیموں کے ٹیلی فون کالز کچھ مخصوص صحافیوں ہی کو کیوں نام نہاد ( نامعلوم ) مقام سے آتے رہتے ہیں، انہیں ٹریس کیوں نہیں کیا جاتا ، یاد رہے اگر ہمارا ملک پاکستان ہی نہ رہے تو ہماری صحافت گئی باڑمیں ۔۔۔ ہائی کورٹ نے کالعدم تنظیموں کے بیانات پر پاپندی لگا رکھی ہے مگر کچھ اخبارات اب بھی بھارتی مذموم عزائم کی تکمیل کے ایجنڈے پر چل رہے ہیں جو معزز عدالت کی توہین ہے ، ترقیافتہ ممالک میں جہاں ضرورت ہو وہاں صحافیوں کو ملک و ملت کی خاطر EMBEDDED JOURNALIST کے طورپر انکی خدمات لی جاتی ہیں اگر ہم اپنی خدمات اپنے مادر وطن کے لیے وقف نہیں کرینگے تو ہمارے بطور ایک ذمہ دار شہری کے کیا معنی رہ جاتی ہیں، کیا اب ہم بھارت افغانستان ایران روس امریکہ،لندن اور سعودی عرب کے گن گاتے پھرے ۔۔۔؟
بلوچستان کے صحافیوں نے قربانیوں دی ہیں ان کی عظیم جدوجہد کو رائگاں نہ جانے دیا جائے ( اندرون بلوچستان کے ایک عام رپورٹرکو کوئٹہ کے جرنلسٹوں کی نسبت زیادہ سیکورٹی رسک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ رپورٹر ظلم کے خلاف ، ناانصافی، اقراء پروری، کرپشن ، سود، منشیات اور لینڈ مافیا کے خلاف قلم ، کیمرا و زبان کے ذریعے حق و صداقت بیان کرتا ہے چونکہ اندرون بلوچستان امن آمان کا مسلہ کوئٹہ کی نسبت زیادہ خراب ہے اسی لیے لوکل رپورٹر براہ راست نشانے پر ہوتا ہے اور خطرناک اسائنمنٹ کورکرنے کے دوران متعددبار اغواء اور تشدد کا شکار ہوجاتا ہے مگر یہ واقعات رپورٹ نہیں ہوتے، جبکہ کوئٹہ کے صحافی سیمیناروں اور میڈیا ورکشاپ میں صحافیوں کے تحفظ پر رقم بٹورتے رہتے ہیں، خود اتنے ڈرپورک ہیں کہ اکثر کسی حساس معاملے میں اپنا نام بھی نہیں آنے دیتے، میں کہتا ہوں موت سے شہادت سے خوف کیسا ، حق کیلئے ہماری جان جاتی ہے تو اعزاز ہے ) ، قلم سے ٹپکنے والی روشنائی اور شہید کے بدن سے ٹپکنے والا لہو ، ان دونوں میں یہ خصوصیت ہے کہ جب ان میں سے کوئی بھی ٹپکتا ہے تو جم جاتا ہے ، ۔۔۔ خون پھر خون ہے ، ٹپکے گا تو جم جائے گا۔۔۔!
جو قسم کھاتا ہے رکھوں گا قلم کی حرمت
زرکی خاطروہ قلم کار بدل جاتاہے
اپنی پیشانی پہ سچ لکھنے کی آیت لکھ کر
کس کے کہنے پہ یہ اخبار بدل جاتا ہے
میں بھی ان صحافیوں میں سے اپنے آپ کو ایک عام کارکن کی طرح سمجھتا ہوں جنہوں نے اپنے قلم کو مفاد پرستوں اور منشیات فروشوں کے خلاف وقف کررکھا ہے ( واضع ہو کہ منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے حوالے سے میرے سخت نظریئے اور کالموں پر کوئٹہ کے مائلو شہید ٹرسٹ کی انتظامیہ ، سٹی نالے پر قابض لینڈ مافیا ناجائز تجاوزات کا گروہ اور افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کے وہ رشتہ دار جو منشیات فروشی میں ملوث ہیں پشتون آباد گوالمنڈی روڈ پر مجھے روک کراغواء اور قتل کی دھمکیاں الگ الگ وقتوں میں الگ الگ اندازمیں دے چکے ہیں )ہمارے اسلاف کے مانند ہم بھی صحافت کو میدان خار زار مانتے ہوئے صحافت کو ایک مقدس مشن کا درجہ دیتے ہوئے صحافت کو پیشہ یا محض تفریح طبع بہم پہونچانے کا کوئی ذریعہ نہیں سمجھتے ہم نے صحافت کو فنکارانہ ہنر مندی کے ساتھ ضرور برتا مگر اسی میں الجھ کر نہ رہے ، ہم اس پتھریلی ڈگر پر آگے اور بہت آگے نکل جانا چاہتے ہیں اگر چہ پاؤں ننگے ہیں ، ہم قلم سے وہی کام لینگے جو کسی زمانے میں شمشیر و سناں سے لیا جاتا تھا، اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ بلوچستان کی نام نہاد سرکاری سیاسی و صحافتی اشرافیہ ہمیں اپنے مذموم عزائم کے سامنے ایک رکاوٹ کے طور پر دیکھ رہی ہے وہ ہمیں اپنے لیے فال بد تصور کرتی ہے اور ہم جیسے چند صحافی ان کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے رہے ہیں ۔۔۔ ایک صحافی کا مذہب ہے بولنا ، اور حقائق کے ساتھ سچ بولنا، دنیا بے شک خاموش رہ سکتی ہے کیونکہ ہر فرد اور ہر طبقے کے ساتھ مصلحتیں جڑی ہوتی ہیں ، غلاموں کے لب سئے جاسکتے ہیں حاکم وقت مصلحتوں اور مجبوریوں کا لبادہ اوڑھ سکتے ہیں مگر صحافی خاموش نہیں بیٹھ سکتا اس کا تو کام ہی ہے بولنا لکھنا اور کھل کر بولنا۔۔۔!
صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے ،اور یہ روایتاً نہیں کہہ رہا بلکہ اس جملے کے ساتھ میری تلخ یاد وابسطہ ہے ڈی پی آر میں ضلع پشین کے لیے کالم نگار کی پوسٹ انفارمیشن آفیسر کے لیے ٹیسٹ کے بعد انٹرویو ہورہے تھے اس وقت کے ایک آفیسر (جو بعد میں سیکریٹری تعلیم بنے )ڈائریکٹر تھے مجھ سے چند سوالات کیے باتوں باتوں میں لارڈ میکالے جنہوں نے برصغیر پاک وہند میں تعلیم اور جیل خانہ جات کے شعبے میں اہم تاریخی کام کیا جیسے ہی ان کا جملہ کہ ریاست کا چوتھا ستون صحافت ہے دہرایا ، موصوف سیخ پا ہوگئے اور بحث مباحثہ شروع کردیا طیش میں آگئے اور صحافیوں کے خلاف لمبی تقریر کرڈالی اور اس طرح میں بے روزگار رہ گیا اور ایک مولوی صاحب ( جو اپنی ہر تقریر کے دوران ہی غیر ارادی طور پر تسبیح بھی پڑھ رہے ہوتے ہیں جو کوئٹہ میں پگڑی اور اسلام آباد میں ٹوپی پہنتے ہیں) کے چہیتے لاڈلے لڑکے کو پوسٹ دے دی گئی جو اس دن اپنے اسناد بھی ساتھ لیکر نہیں آیا تھا جو مجھ سے دس بار جونیئر ہے وہ صحافت کے سمندر میں غوطے لگانے کی بجائے سوئمنگ پول کا کھلاڑی ثابت ہوا، مجھے قدرت نے بعد میں اس سے بہت اچھی جگہ پوسٹ دی ، دنیا کے بڑے بڑے میڈیا ورکشاپ میں سیمینار میں شرکت کرچکا ہوں ، اردو پشتو انگریزی تمام اخبارات میں لکھ چکا ہوں، بس کرم ہے مولا کا ۔۔۔ جو شخص اس وقت بیرون ملک بیٹھ کر کالعدم تنظیم کا حمایتی بنا پھرتا ہے ایک وقت میں یونیورسٹی کے ہاسٹل بلاک نمبر 13، کمرہ نمبر 63 میں وہ میرے ساتھ بیٹھ کر صحافت کی بساط داؤپیچ سیکھا رہے ہوتے تھے، ہم بھی ان طلباء میں سے ایک ہیں جن سے کلاس کے باہر اساتذہ منت سماجت کرکے کہتے ،کچھ خیال کرو کلاس میں زیادہ سوالات نہ کرنا،جس خاتون ٹیچر نے مجھے جرنلزم کے کلاس سے صرف اپنی انا کی تسکین کی خاطر نکال دیاتھا ایک دن وہی خاتون ٹیچر میرے انڈر ملازمت کرنے لگی اور میں باس تھا، واہ رے قدرت ۔۔۔صحافت کو ملک و قوم کی آئینہ دار اور صحافی کو تاریخ کا گواہ کہا گیا ہے ، لیکن آج کی تاریخ میں صحافت کا رول اس سے بہت زیادہ ہے وہ کسی ملک یا قوم کی نہ صرف یہ کے تاریخ رقم کرتی نہ صرف یہ کے آنے والی نسلوں کو گزشتہ قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں سناتی ہے بلکہ اس کے کردار کی سچی اور درست تصویر یہ ہے کہ وہ قوموں کی تقدیر رقم کرتی ہے ، ان کو عروج و زوال سے آشنا کراتی ہے اور ان کو سرد وگرم کے مزے چکھاتی ہے ، جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ لوکل باضمیر رپورٹر کی زندگی کانٹوں اور انگاروں پر ننگے پاؤں چلنے کے مانند ہوتی ہے مگر دوسری طرف دو نمبر لوکل رپورٹر کی زندگی ایک عیش پرست غافلانہ و غلامانہ ذہن کی عکاسی کرتی ہے تصویر کا دوسرا رخ مختصراً یہ ہے کہ آج کل بڑا صحافی بننے کیلئے مولانا ظفر علی خان ، مولانا عبدالکلام آزاد سر سید احمد خان ، یوسف عزیز مگسی ، خان عبدالصمد خان شہیدکے زریں اصولوں کا مطالعہ کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ آج کل بڑا صحافی بننے کے رہنما اصول یہ بن گئے ہیں کہ لفافہ دکان سے ملے یا سیاستدان سے ۔۔۔ آنکھیں اور منہ بند کرکے بس لے لیں ۔۔۔ مطالعہ کتا ب کا ہو ، یا اخبار کا ،، اجتناب برتیں ، علاقے کے پولیس سے تعلقات بنائے ، اسپیشل برانچ اور کرائم برانچ کا فون نمبر یاد ہو ، ایک عدد پریس کارڈ بھی مل جائے موبائل کیمرا ہو تو فیس بک پر تصویر اپ لوٹ کریں ، اپنے صحافیوں کا واٹس اپ گروپ ہو اور اپنی سواری گاڑی موٹر سائیکل پر ’’ پریس ‘‘ ضرور لکھوائیں۔۔۔ لو بھائی ہم تو ہوگئے ( صحافی )۔۔۔ کچھ دنوں پہلے کا واقع آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ایک اصل لوکل رپورٹر کو کیا مشکلات درپیش ہوسکتے ہیں ایک مثال سے آپ پر واضع ہوجائے گا پچھلے دنوں پشین کی صحافتی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ حق اور سچ کے پرچار سے روکتے ہوئے ہمارے گھرانے کے ایک نوجوان صحافی محب اللہ ترین پر اقتدار میں براجماں ایک نام نہاد قوم پرست پشتون اشرافیہ کے ٹولے نے6، اکتوبر 2016کی بھیانک رات بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، مگر جسے اللہ رکھے اسے بھلا کون چکھے۔۔۔ ! پشین کی صحافتی برادرای حسب روایت تماشائی بنی رہی، واقعہ کے خلاف چمن نیشنل پریس کلب کے صحافیوں نے محمد اسلم اچکزئی کی سرکردگی میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور پشین کے صحافی گھوڑے بیچ کر لمبے سو گئے تھے ، میں اکثر کہتا ہوں کہ پشین کے عوام کا خون نچھوڑنے کے لیے یہاں کے تاجروں ، قصابوں نے تو اپنی تنظیم بنا ڈالی ہیں مگر پشین کے صحافی ایک مشترکہ پریس کلب کو بطور ایک پلیٹ فارم نہیں اپنائینگے ۔۔۔ اندرون بلوچستان میں چند باضمیر صحافیوں نے قلم کی حرمت کی پاسداری کرتے ہوئے صحافت کی شمع بجھنے نہیں دی اسی طرح مجھ ناچیز سمیت میرے خاندان کے بڑوں ملک سعداللہ ترین آواز اخبار، ملک حمیداللہ ترین نے پشین اخبار، عصمت اللہ زہیر نے حسنی ادبی رسالہ کے پلیٹ فارم سے بھی پشین کی صحافتی تاریخ کی مشعل جلائی رکھی ہے،اور اب ہمارے خاندان کی نئی نسل ملک عنایت اللہ ترین ، نجیب اللہ ترین ، محب اللہ ترین ، سمیع اللہ ترین ، آمیر محمد ترین یہ ذمہ داریاں سمبھالنے کے لیے آمادہ ہیں ، پشین کی تاریخ میں، میں نے پہلی بار ماسٹر جرنلزم مکمل کرنے کے بعد ایک مکمل اخبار کا اجراء کیا اوریہ پودا اب ایک تناور درخت بن چکا ہے ،جبکہ ریڈیو اور ٹی وی پروڈیوسر کے طور پر اپنے مشن کو جاری رکھا ہوا ہے ، اور آج کل SOCIETY OF PROFESSIONAL JOURNALISTS ( SPJ ) پشین چپٹرکے صدر کے طور پر سرگرم ہوں، ہمارے بعض صحافی رعونت کی انتہا میں بھول جاتے ہیں کہ انسان مکمل نہیں محتاج اور کمزور ہے ، کبھی بھی کسی سے کام پڑسکتا ہے اس لیے دوسروں کا ہر وقت خیال رکھنا پڑتا ہے ، یہ واقع کوئی لطیفے سے کم نہیں ہے ایک دن کسی پروگرام کیلیے پشتو ٹی وی چینل کے ایک رپورٹر (جو اصل میں کوئٹہ کا باشندہ نہیں مگر رہتا یہاں ہی ہے ) کو فون کرکے بلانا چاہا جواب ملا کہ ریڈیو کا زمانہ نہیں رہا اس لیے اب مصروف ہوں نہیں آسکتا میں نے کہا کہ ریڈیو کا زمانہ تو آمریکہ و روس چین جاپان جرمنی لندن میں ختم نہیں ہوا تو کوئٹہ میں کب سے ختم ہوچکا ہے آجاؤ یار تمہارا ریڈیو کرنٹ آفیر پروگرام میں شرکت لازمی ہے اگر خود نہیں آسکتے تو اپنے بیوروچیف کو بھیج دو جواب ملا کہ جب میں رپورٹر ہوکر نہیں آسکتا تو بیوروچیف کیسے آسکتا ہے یوں جواب نفی میں زیرو صفر ۔۔۔ خیر دل میں، میں نے کہا کہ ایک دن مجبوراً تمہیں آنا پڑے گا ، وقت گزرتا گیا اور ایک وقت ایک غیر ملکی این جی اوز جو ہالینڈ میں میڈیا کے حوالے سے کام کررہی تھی اور تیسری دنیا خاص کر بلوچستان میں پشتون صحافیوں کو درپیش مسائل و مشکلات پر ایک ریسرچ پیپر ورک کررہی تھی مجھ سے رابطہ کیا اور چند سوالات و جوابات کا سلسلہ ای میل کے ذریعے ہوا بعد میں انہوں نے یہ پروجیکٹ اسلام آباد میں قائم پشتونوں کے ایک بڑے نمائندہ ٹی وی چینل کے سی ای او کو دیا کہ وہ اس پر مزید کام کرے اور چونکہ لسٹ میں میرا بھی نام تھا اس لیے سی ای او صاحب نے کوئٹہ میں اپنے بیوروچیف کی ذمہ داری لگائی کہ اس نقیب ہیکل زئی کو ذرا ڈھونڈ کر نکالو یہ کیا چیز ہے کون ہے کہاں رہتا ہے ، کیا کرتا ہے تمام کوائف مانگ لیے اب جناب سارے رپورٹر میرے پیچھے لگ گئے اور میں نے کہا جناب فلاں رپورٹر کو ریڈیو پاکستان کوئٹہ بھیج دو میں ساری معلومات دے دونگا اور جناب آدھے گھنٹے میں موصوف رپورٹر میرے سامنے سگریٹ پہ سگریٹ سلگا کر حیران و پریشان بیٹھا ہنس ہنس کر کہہ رہا تھا کہ آپ ہمارے سی ای او کو کیسے جانتے ہیں، اور میں سوچ رہا تھا کہ واقعی غرور کا سر نیچے ہوتا ہے ، تو جناب صحافت محض شوق کا کام نہیں ہے اس راہ میں بڑے پیچ و خم ، نشیب و فراز آتے ہیں چھ بار سے زائد ناحق حوالات کی ہوا کھاچکا ہوں ، اپنے ہی اخبار کے پانچ سو کاپیوں کا بنڈل اٹھا کر تین میل کا سفر رات کے چار بجے تہنا کرچکا ہوں، دو سال تک جناح روڈ کوئٹہ میں قائم اخبار کے دفتر سے بلوچستان یونیورسٹی تک ہر رات متواتر تین بجے اکیلا پیدل واپس ہاسٹل جاتا رہا ، منشیات اور پولیس کے کٹھ جوڑ پر مبنی میری ایک تحقیقاتی رپورٹ چھپانے کے لیے پولیس نے میرے سارے اخبار کے بنڈل کو آگ لگا دی ، شہر میں میرے ایک شائع شدہ پمفلٹ نے پولیس اور جوئے کے اڈے چلانے والوں کے کالے کرتوت کا جب بھانڈا پھوڑاتب جوابی انتقامی کارروائی میں میرے دو بھائیوں کو جعلی ایف آئی آر میں بندکرایا گیا ، اور عدالتی مداخلت پر ہم تو سرخرو ہوگئی مگرپولیس آفیسرکو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا، غرض کانٹوں کا جہاں ہے کہیں گلشن نہ سمجھنا، میں اپنے نوجوان صحافی دوستوں کو ضرور مشورہ دونگا کہ وہ اپنے وطن جہاں انہوں نے ایک دن مرکردفن ہونا ہے کی خلوص کے ساتھ خدمت کرے اور چونکہ یہ صحافت ایک پیغمبرانہ مقدس مشن ہے یعنی مسلم صحافی داعی حق ہوتا ہے حق کا ساتھ دینا برائی سے بچ کر نیکی کی تلقین ثابت قدمی اور صبر سے کرنا ہے اس لیے وہ ظلم ناانصافی کے خلاف ڈٹ جائیں اگر چہ اس میں مشکلات مالی و جانی یا پھر ذہنی آئینگے مگر صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔۔۔ اور ظاہر ہے قانون قدرت ہے کہ فتح حق اور سچ کی آخر میں ہوتی ہے ازل سے ابلیسی اور خدائی قوتوں کے درمیان نیکی اور بدی کی اس جنگ میں کامران و سرفراز وہی ہوگا جو ڈٹ جائے گا وقت کے فرعونوں کے خلاف ۔۔۔ پہاڑ بن جائے گا ۔۔۔ معرکہ حق و باطل اور یزیدی لشکر کے خلاف صرف میدان جنگ میں ہی نہیں بلکہ قلم و کتاب کا غازی و مجاہد بھی تاریخ سے ثابت ہے اس لیے دوستوں ہوس زر کی پوچا بند ہونی چاہیے ، بلوچستان بھر کے صحافیوں کو مجھ جیسے عام صحافی ورکر کا پیغام ہے کہ متحد ہوجاؤ آپس کے اختلافات بھلا دو ، لوگ فریضہ حج کے دوران دشمنوں کے لیے بھی دعائیں کرتے ہیں اور ایک ہم بدقسمت ہیں کہ اپنے ہی دوستوں کو بددعائیں دے رہے ہیں، بددعائیں مت دو کام سے لوگوں کی زبانیں بند کردو ۔۔۔میرے بڑے بھائی پشتو کے فلسفی شاعر پروفیسر راز محمد راز مرحوم کینسر سے وفات پاگئے ہم اس خطرناک مرض کا دکھ جھیل چکے ہیں کسی کو کیا اندازہ ہوسکتا ہے ۔۔۔!
آج موقع ہے تو ایک اور مختصر واقع تاریخ کے حوالے کرتا جاؤں ، میری اس 45سالہ زندگی میں ان گنت واقعات رونما ہوچکے ہیں 90ویں کی دہائی میں ایک باتونی صحافی کے نام سے مشہور رپورٹر کو واپڈا حکام نے بجلی چوری میٹر میں گڑبڑ کرنے کے جرم میں دھر لیا تین دن تک ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر صیاد نے قفس سے آزادی نہ دی تب یہ ناچیز اٹھا در در کھٹکھٹایا، ثبوت دئے منت سماجت کی اثر و رسوخ استعمال کیا ، خبریں چلائی پمفلٹ بنائے ، رائے عامہ ہموار کیا اور واپڈا چیف سے ملاقات کی، اُس وقت میں زمانہ اور بلوچستان ٹائمز کے ساتھ رپورٹر تھا ،سید فصیح اقبال مرحوم کی مداخلت پر اُس رپورٹر کو آزاد کرایا ، آج کل یہ باتونی رپورٹر کوئٹہ کے ایک اخبار کا بدقسمتی سے نیوز ایڈیٹر ہے ، میں نے اپنے دوست رپورٹر کے ساتھ بھلائی ہمدردی اور بھائی چارے کے نیک جذبے کے تحت اچھاسلوک و تعاون کیا مگر افسوس جب منشیات و ڈرگ مافیا کے خلاف ( جو میرا اصل سبجیکٹ ہمیشہ سے رہاہے ) میری پریس رپورٹ مقامی اخبار میں شائع ہوئی اور چند مفاد پرست تاجروں سیاست دانوں نے الٹا ہتک عزت کا دعوی مجھ پر ضلعی عدالت میں دائر کیا ، تھانے کی ہوا کھانے کے بعد تین دنوں ہی میں ، میں باعزت رہا ہوگیا اور منشیات فروش اپنے انجام کو پہنچ گئے ، تب ایسی مصیبت کی گھڑی میں اسی باتونی تیس مار خاں رپورٹر صاحب نے تمام اخبارات میں پریس ریلیز جاری کی کہ نقیب ہیکل زئی ہمارے پریس کلب کا ممبر نہیں ہے اور اس کے رپورٹ اور عمل سے ہم صحافتی برادری لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں ، حیرت تو مجھے اس وقت ہوئی جب بعد میں کسی وقت کورٹ رپورٹنگ کے دوران ہم دونوں کا آمنا سامنا ہوا ، منافق کی انتہا ملاحظہ ہو سعودی شیوخ کی مانند مجھے ماتھے پر چومتے ہوئے گویا ہوئے کہ آپ جیسے نوجوان صحافیوں کی اس وطن کو ضرورت ہے ۔۔۔! واہ کیا شاطرانہ طریقہ واردات ہے خان یہ بھی کرتا ہے اور خان وہ بھی کرتا ہے ۔۔۔ قدرت کا کھیل ہے بعد میں وہ وقت بھی آیا جب یہی باتونی رپورٹر صاحب میرے ہی اسسٹنٹ رپورٹربن گئے اور میں باس تھا، قدرت پروردگار عالم کی شان ہے ، ریڈیومیں ایک عام کمپیئر کے آڈیشن کے دوران ہی مجھے صرف اس لیے فیل کردیا گیا کہ میری مادری زبان پشتوہے اردو نہیں ، ریڈیو کے گیٹ سے نکلتے وقت میں بہت افسردہ رہا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اگلے چار سال کے دوران اسی آفیسر کے سامنے میں اُسی کی پوسٹ کے مطابق اردو کا کرنٹ آفیئرڈاکومنٹری پروڈیوسر بن چکا تھا اور میرے انڈر چالیس سے زائد کمپیئر پشتو سیکشن میں الگ کام کررہے تھے ،قدرت جب مہربان ہوتی ہے وہ ماحول میں نے بھی دیکھا ہے بڑا پرسکون محسوس ہوتا ہے ، مخصوص مفاد پرست ٹولے کی خوشامد کرنے والے صحافی جو موٹر سائیکل کی چاپی لیکر بدلے میں اپنا قلم ضمیر کا سودا کرچکے ہیں وہ اب ملک کی خاطر اپنے آنے والی نسل کی خاطر فیصلہ کر ہی ڈالے کہ وہ اب مزید جھوٹ پر مبنی بناوٹی زندگی نہیں جی سکتے اس مصنوعی زندگی میں جان نہیں ہوتی یہ مردہ زندگی ہے ۔۔۔
نظم کرنے کو قوم کی تاریخ مجھ سے کہتا تھا ایک دن کوئی،
باادب۔ میں نے عرض کی کہ مجھے نہیں آتی ہے مرثیہ گوئی
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ قومی زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح یہاں بھی کالی بھیڑیں موجود ہیں ، جن کی وجہ سے بعض اوقات پوری صحافی برادری کو بڑی خفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، زرد صحافت اور لفافہ صحافت کی اصلاحات ایسی ہی کالی بھیڑوں کیلئے استعمال ہوتی ہیں جو اپنی حیثیت اور اختیار کا رعب جماکر لوگوں کو بلیک میل کرتے اور رقم بٹورتے ہیں ، اور شاید وہ وقت قریب ہے کہ بلوچستان کے صحافت میں ان کالی بھیڑوں کا شکار ہوگا یہاں کے احتسابی نظام کو ان پر ہاتھ ڈالنا ہوگا ، مجھے اس وقت سخت حیرانی اور صدمے کا سامنا کرنا پڑا جب 90 کی دھائی میں کوئٹہ میں موجود ایک نیوز ایجنسی کے بیوروچیف نے بلدیہ کی عمارت کے قریب اپنے دفتر میں بلاکر مجھ سے کہا کہ پشین میں جو بھی رپورٹنگ سے کماؤ گئے اس میں آدھا حصہ میرا ہوگا ، کیا یہ ہے صحافت ۔۔۔؟ اور مجھے سخت کوفت ہوتی جب بھی کسی پریس کانفرنس میں آج بھی اس منحوس راشی چہرے والی بیوروچیف کو دیکھتا ہوں کہ کوئٹہ کے صحافیوں نے اسے باپ کا درجہ آج بھی دیا ہے اور کوئٹہ پریس کلب میں ایک اہم مقام دیا ہے ، پتہ نہیں سینے اور جگر میں رہنے والا ضمیر لالا جس کا نام تھا کہاں مرگیا ہے ۔۔۔ضمیر کی آواز کو فوقیت دینی چاہیے، ایک بار پرویز مشرف کے دور میں ڈی پی آر کے آفیسر میرے محسن ڈپٹی ڈائریکٹر خادم علی نوری مرحوم نے مجھے بلاکر خبردار کیا کہ دیکھو جوان ، کل مجھے فون آیا کہ نواب بگٹی کے قتل پر تمہارے اخبار میں اداریہ بہت سخت ردعمل ہے ، تم اپنا خیال رکھنا اور بس دفتر سے نکل ہی رہا تھا کہ منان چوک سے سیاہ شیشوں والی گاڑی میں بیٹھایا اورسیدھے کالے گیٹ والے عمارت میں فوراً پہنچا دیا ، وہاں آفیسر نے کہا یہ تم نے کیا لکھا ہے پتہ بھی ہے کہ ملک میں ایمرجنسی ہے ، یہ قانون کی خلاف ورزی ہے ، میں نے برجستہ کہا جناب اس طرح اٹھا کر لے آنا کون سے قانون کی پاسداری ہے ، میں ایک محب وطن شہری و صحافی ہوں ، آپ ہتھیار اٹھا کرملکی جغرافیائی سرحدوں کی دفاع پر مامور ہیں اور میں قلم تھام کر ملکی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کررہا ہوں ، نواب بگٹی اس صوبے کے ایک اہم عہدے پر فائز رہ چکا تھا اس کی موت سے مسائل پیدا ہوئے ہیں اور میں اس صورتحال سے لاتعلق نہیں رہ سکتا ،وہ آفیسر مطمئن نہیں ہورہا تھا جب میں نے اس سے یہ بات کہی کہ جناب آساپ پپلی کیشن کے مالک نے مجھے بلاکر بھاری معاوضے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ تم ایک پشتون ہو اور ایک ترین قبائل کے سرگردہ خاندان کے نوجوان نڈر تعلیم یافتہ آزاد خیال نوجوان ہو اب بلوچ علیحدگی پسندوں کی تحریک میں پشتون بیلٹ کے مثبت اور حمایتی خیالات کی پرچار کے لیے ہمارے لیے آرٹیکلز لکھنا شروع کردو، تمہارے سارے مواد کو کتابی شکل میں چھاپنے کا خرچہ ہمارے ذمہ ہے بس تم ہمارے لیے ہمارے شرائط پر لکھنا شروع کردو ۔۔۔ آفیسر کرسی میری طرف آگے سرکتے ہوئے تجسس سے گویا ہوئے تو ینگ مین تمہارا کیا جواب تھا ۔۔۔ میں نے مسکراتے ہوئے جس میں تلخی اور سچائی کچھ زیادہ ہی تھی کہا ، جناب میں نے پتہ نہیں کیا کہا تھا کچھ عجیب سے الفاظ تھے ، منتشر ذہن کے بکھرے خیالات تھے لیکن آساپ پپلی کیشن سے نکلتے وقت پتہ نہیں کیوں میں میڈم نورجہاں کا گایا ہوا پنجاپی ملی نغمہ گنگنا رہا تھا ۔۔۔ اے پتر ہٹاں تے نہیں وگدے۔۔۔!
کوئٹہ کے نام نہاد صحافی بعض اوقات اندرون بلوچستان کے صحافیوں رپورٹروں کا حق بڑی آسانی بے شرمی اور ڈھٹائی سے ہڑپ کرجاتے ہیں ان کو آگے آنے کا موقع نہیں دیتے ، ایک بار میں ایک غیر ملکی خاتون صحافی کارلوٹا گل کے ساتھ ای میل کے ذریعے رابطے میں تھا ہم ایک اسٹوری پر کام کررہے تھے کہ کس طرح بلوچستان کے بعض سیاستدان منشیات فروشوں کے ساتھ ملکر اپنا سیاسی و حکومتی اثر و رسوخ استعمال کرکے ڈرگ منی بناکر اس کو الیکشن کمپیئن میں استعمال کررہے ہیں ، غیر ملکی خاتون صحافی نے مجھے APPROACH کیا ، کوئٹہ کے سرینا ہوٹل میں ملاقات کا وقت طے پایا گیا میں نے یہ بات پریس کلب کے اپنے ایک دوست کے ساتھ بھی ڈسکس کی اور کچھ ہنٹس دیے میں چونکہ پشین سے آنے والا تھا ، موبائل کا زمانہ نہیں تھا روڈ خستہ حال ٹرانسپورٹ تباہ اس لیے دیر ہوگئی، پتہ نہیں کب پریس کلب کوئٹہ کایہ تیس مارخاں وہاں پہنچ گیا اور اس غیر ملکی خاتون صحافی کو سیکریٹریٹ لے گیا چند سیاستدانوں سے ملایا اور بات ختم کرادی لوجی رپورٹ تیار ہوگئی، بعد میں جب میں آیا تو کمرے میں نہ آدم نہ آدم زاد، دوپہر تک انتظار کیا ، کہ دیکھتا ہوں وہی میرا دوست بیگ اٹھائے خوشی خوشی آرہا ہے مجھے دیکھ کر دور ہی سے مسکراتے ہوئے کہا پہنچ گئے بہت دیر کردی یار غیر ملکی لوگ ہیں اب تم پشین والوں کا انتظار تو نہیں کرسکتے ۔۔۔! کھانا کھانے اور اپنا حصہ لینے کے بعد جب یہ تیس مارخاں صحافی ( جو آج کل آمریکہ میں مقیم ہے اور وہاں ریڈیوکے ایک چینل میں کام کررہا ہے اپنے فیملی بچوں کے ساتھ خوش ہے ) سرک گیا تب کارلوٹا گل نے مجھے کہا کہ مجھے کوئی لیڈ نہیں ملی کوئی خاص اسٹوری نہیں ملی ، نقیب کچھ کرو سارا دن ضائع ہوگیا۔۔۔ تب ناچیز نے جو کیا وہ ایک الگ کتابی باب ہے ۔۔۔! آمریکہ کی ایک اور خاتون صحافی گرینویج پیٹر نے منشیات اور ڈرگ مافیا کے خلاف میرے کام ریسرچ کو سراہا ہے اور اپنی کتاب سیڈ آف ٹیرر میں صفحہ نمبر 156میں میرا ذکر خیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ نقیب ہی نے بلوچستان میں سیاستدانوں اور منشیات فروشوں کے اسمگلنگ غیر قانونی بلک منی کے ناجائز خفیہ تعلق کو افشاں کیا ہے۔۔۔! صحافیانہ زندگی میں برٹش جرنلسٹ میتیو گرین کے ساتھ کوئٹہ اسلام آباد اور چمن قندہار کے علاقوں میں طالبان دور میں بطور انٹرپریٹر کام کرکے خوب انجوائے کیا ، اس دوران بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکشن کی سابقہ چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر نے اپنی جرنلزم کی کتاب ( بلوچستان میں ابلاغ عامہ ) کے صفحہ نمبر 483اور پشتو زبان کے ایک بہترین ادیب شاعر محقق ڈاکٹر لیاقت تاباں نے اپنے جرنلزم کی کتاب ( پشتو رسنئی) میں صفحہ نمبر 48پر میرے صحافتی کام اور میرے اخبار کا ذکر و خدمات کا اعتراف کیا ہے، مختلف اداروں سے بے شمار اسناد اور ایوارڈ ملے ۔۔۔شاید آپ کو مبالغہ آرائی محسوس ہولیکن یہ حقیقت ہے کہ سابق صدر فاروق لغاری، ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، نواز شریف ، بے نظیر بھٹو، پرویزمشرف سمیت کئی نامور شخصیات پرسوالات کرکے اپنے ادارے کے لیے بطوررپورٹر ریکارڈنگ کی ہے ، زیارت کے بڑے زلزلے میں کوئٹہ سے وہ پہلا رپورٹر تھا جو آرمی کے ہیلی کاپڑ میں صبح سویرے پہنچ کر انگلش میں میڈیا اور ریڈیو کے لیے رپورٹنگ کی ، ضلع پشین کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ میرے فیچر بہ عنوان ( پشین کے شہداء ) جب ایک اخبار روزنامہ صداقت میں شائع ہوا تب صرف ایک ہی دن میں ایک ہی شہر میں بارہ سو کے قریب اخبار ہاتھوں ہاتھوں فروخت ہوا ، ہاکر تھے کہ مطالبہ کررہے تھے اور اخبار چاہیے منگوالے جناب ، لیکن نہیں کیونکہ میں ڈیمانڈ اور سپلائی کے اصول کو اچھی طرح جانتا تھا، لوگوں نے مجبوراً فوٹو اسٹیٹ کے ٹکڑوں پر گزارہ کیا جس کے پاس اخبار پہنچا انہوں نے اپنے آپ کو خوش قسمت جانتے ہوئے اس یادگار اخبار کو فریم بنا کر محفوظ کردیا ، ایڈیٹر سید انور شاہ اس کے گواہ ہیں، اللہ تعالی نے شہرت کا مزہ مجھے بھی چکایا مگر اس میں غرق نہیں کیا ، دماغ نہیں پھرایا اگرچہ یہاں کوئٹہ میں بعض صحافیوں کے دماغ ٹھکانے ہی نہیں رہتے ، کبھی کرسچن گلی میں نشے میں دھت پڑے رہتے ہیں کبھی تین دروازے والے کمرے میں بدحواس ہوجاتے ہیں ، طوالت کا اندیشہ ہے اس لے ایک مزے کی بات بتاکر اختتام کی جانب سفر تمام کرتا جاؤں ، پچھلے دنوں کوئٹہ کے ایک ہوٹل میں پریس و آزادی صحافت پر ایک بڑی تقریب غیر ملکی این جی اوز کے خرچے پر ہوئی وہاں میری حیرانی کی انتہا نہ رہی جب میں نے کوئٹہ کے بے شمار لوگ دیکھے جو صرف دوپہر کے پرلطف کھانے کی عیاشی اور انعامات کی غرض سے وہاں وارد ہوئے تھے حلانکہ بہت سوں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ ڈرائیور ، ہوٹل مالک ، دکاندار ، گاڑیوں پر شوقیہ پریس لکھنے والے مفاد پرست مفت خوری حضرات تھے جن کا صحافت کی الف ب ت سے بھی دور کا واسطہ نہ تھا ، اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ پریس کلب میں جب بھی کسی فنکشن میں جانا ہوتا ہے یہ شوقیہ شاہ رخ خان ٹائپ کے رپورٹر اپنے رشتہ داروں کویہ کہہ کر بھی ساتھ لے جاتے ہیں کہ چلو یار وہاں کھانا وانا ہوگا خوب مزہ آئے گا آوٹنگ بھی ہوجائے گی ، سب کو معلوم ہے کہ اندرون بلوچستان ایک مشہور شہر میں ہر صحافی کو ( ڈاگی ) کے گندے نام سے پکارا جاتا ہے پشتو میں جس کا مطلب ہے شیطان ، چغل خور، اورلگائی بجھائی کرنے والا۔۔۔!
کوئٹہ کے صحافیوں نے اندرون بلوچستان کے رپورٹروں اور صحافیوں کیلئے اپنے کردار سے ثابت نہیں کیا ہے کہ وہ ایک بااصول صحافی کی مانند دوسروں کے لیے مشعل راہ بن سکتے ہیں، وہ خود راہ سے بھٹکے ہوئے راہی ہیں دوسروں کو کیا خاک مثبت اوراصول پسند صحافت کا درس دینگے، جرنلزم کیلئے یہاں کوئی گوڈ آف ایتیکس نہیں ہے ، ہائے خاک میں پنہا ہوگئے ، جو معاشرے کی بھلائی کا درس دیتے تھے، اب تو ایسے قلم کی دہار کو زمانہ ہوگیا ترس گئے کہ کوئی اچھی تحریر پڑھنے کو ملے کہیں سے ۔۔۔!
صحافت کا معیار بلوچستان میں روز بہ روز گرتا جارہا ہے کسی ایک ایسے بااصول صحافی کی نشاندہی مشکل ہی سے ہوسکتی ہے جو اپنے اصول کے لیے ڈٹ کر کھڑا رہا ہو، کاروبار پیسے دھندے کی بجائے اپنے مشن نظرئے اور پیشے کو ترجیح دی ہو، اب تو ایک نیا فیشن شروع ہوگیا ہے جو چند اخبار کے کالم پڑھ لے چند ٹی وی ٹاک شو دیکھ لے وہ فوراً صحافیوں کی فلاح و بہبود کیلئے ایک عدد تنظیم کا بنیاد رکھ لیتا ہے بالکل جعلی ڈاکٹر کی طرح کلینک شروع کردیتا ہے یہاں زرد صحافت تو عروج پر تھی ہی مگر اب زر صحافت بھی بے قابو ہوتی جارہی ہے ، کسی کے پلے کچھ نہیں پڑرہا، بریکنگ نیوز کے چکر میں سب کیمرا اٹھائے رپورٹر سمیت ادھر اُدھربے مقصد دوڑ رہے ہیں کون کس کو کب نیچا دکھائے کون غرور سے اٹھائے، سب ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے ہوئے کشتی کھیل رہے ہیں ، نہ سمت کا تعین نہ کوئی مقصدنہ کوئی منزل بس سارا دن کیمرا اٹھائے مٹرگشت و آوارگی میں لگے ہیں،اور اس فکری تنگدستی کے ذمہ دار یہاں کے فرسودہ ذہن کے مالک قبضہ گیر مفاد پرست اور اب مراعات یافتہ صحافتی طبقہ ہے ( جنہوں نے نوجوان صحافیوں کی تربیت کا معیار صرف یہ رکھا ہے کہ بس ایک میڈیا ورکشاپ ، چند پیسے، کچھ اسناد کچھ تصویریں اور بس ، چل بھائی ہوگئے رپورٹر جاؤ اب خبر لاؤ، اور ایسے اناڑے جب خبر ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو کوئٹہ میں سولر بچوں کی تلاش والی خبر بریک کرتے ہیں افسوس ہے ان کی صحافت پر ، واہ کیا خبری حس ہے) جن کے خلاف حق پرست سچ گوئی کے علمبردار صحافی اپنے قلم کی دہار تیز کرلے ، کیونکہ شکست و رسوائی ان کا اب مقدر بن چکی ہے ان کومیدان توچھوڑنا ہی پڑے گا ، ہمارے پاس تو کھونے کو کچھ نہیں ہے البتہ پانے کو سارا جہان پڑا ہے ، یہاں کویٹہ میں کم عمر صحافی بھی اپنے ساتھ سنییر ترین صحافی لکھتے نہیں شرماتے ، کویٹہ کے دو نمبر صحافی اپنے شہید ہونے والے رپورٹروں کی موت شہادت پر کاروبار دھندہ کررہیے ہیں ، اخبارات میں پچھلے تاریخ پر خفیہ طور پر نوکریوں اور ٹھیکوں کے اشتہارات چھاپ کر لاکھوں رشوت لیتے ہیں ، بلوچستان میں کویی ایسا مرد نہیں جو ہای کورٹ میں ان بڑے ٹی وی چینلوں پر کیس کرے کہ آپ اپنے آپ کو قومی میڈیا کہتے ہیں ذرا دکھاے کہ کویٹہ میں کس چینل کا مرکزی سینٹر قایم ہے ، بلوچستان کے اصلی صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو نظر انداز کیا گیا ہے جبکہ انرون بلوچستان تو گھپ اندیرا ہے ، کچھ ناسمجھ دوست مجھ پر الزام عاید کرتے ہیں کہ آپ بہت سخت لکھتے ہیں ارے نادان بھای آپ کینسر کا علاج ڈسپرین سے کیسے کرینگے ، اس کے لیے سخت سرجری آپریشن ضروری ہے آپ کے مکھن لگاے گے درباری خوشامدی قصیدہ گوی سے کام نہیں چلے گا ، میں تو کہتا ہوں یہ عہدے یہ کرسیاں یہ حکمرانوں کی درپردہ پشت پنائی ان کے کسی کام کی نہیں آنے والی ، کوئٹہ کے مقامی صحافیوں کو یہاں کے مقامی اخبارات کے مالکان کو اندرون بلوچستان کے تمام پریس کلبوں کو رپورٹروں کوآپس کے اپنے معمولی معمولی اختلافات اور انا کی جنگ کو ایک عظیم مقصد کے حصول کی خاطر بھلانا پڑے گا تب ہی سیاہ رات کی تاریگی اور ان قبضہ گر نام نہاد سنئیر صحافیوں کے (سیاہ اتحاد ) کو نیست و نابود کیا جاسکتا ہے ، روشنی کا ، اجالے کا ، پانی کا سیلاب کا راستہ کون روک سکتا ہے ؟ انہیں بہنے دے ، ورنہ پانی اپنا رستہ خود بنا لے گی ہمارے پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ ( د غلہ میڑانہ ، تیشتہ دہ ) چور کی بہادری بس یہی ہے کہ وہ فوری طور پر بھاگ جائے ۔۔۔ فکری آزادی کا ، قلم کا جہاد جاری رہے گا۔۔۔
کوئٹہ کا مقامی پریس، جدوجہد کے مراحل میں ۔۔۔
! ۔۔۔فیچر ۔۔۔ تحریر۔۔۔ نقیب ہیکل زئی ، پشین ، فری لانس جرنلسٹ
naqeebpishin@gmail.com— 03337793666
https://www.facebook.com/naqeebhaikalzai
صحافت سے متعلق حقائق، مشکلات اور ترجیحات پر مبنی اندرون بلوچستان کے ایک مزاحمتی صحافی کی فکرانگیز تحری
براہ مہربانی نیچے کمنٹ لکھے اور آگے شییر کریں شکریہ