پشین کا لکشمی مندر ، ایک میوزیم ایک ورثے کی حیثیت رکھتا ہے

LASKSHME NW

پشین(صحافی ملک نقیب اللہ ہیکل زی ) پشین ایک تاریخی شہر ہے ، یہاں تقسیم برصغیر سے قبل شہر کے اندر تقریبا 35 ہندو گھرانے رہتے تھے جن کے لیے شہر کے اندر زوڑ بازار یعنی پرانا بازار میں ایک عبادت گاہ لکشمی مندر کے نام سے بنای گی تھی یہ مندر 1870عیسوی میں سر رابرٹ سنڈیمن جو 20 دسمبر 1875 میں کویٹہ اور پشین پدارے ، کے ساتھ ان کے لکھاری اور منشی راے بہادر لالا ہتو رام بھی براجمان تھے ، لالا ہتو رام کے پشین آنے سے قبل ان کے دوست و ہمرکاب و استاد لالاچوکھانند ، لالا گپت راے اور لالا چوہڑ مل نے مل کر لکشمی مندر تعمیر کی جس پر اس وقت ہزاروں روپے خرچہ آیا ، لکشمی دراصل ہندو دھرم میں دولت خوشحالی کی ایک دیوی ہے، پشین شہر میں پاکستان اور

3

ہندوستان کی تقسیم کے بعد ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے ، ہندوستان بمبی ، مدراس لکھنو اود دکن سے یہ اطلاع ملی کہ مسلمانوں کو قتل کردیا گیا جس کے بدلے میں پشین میں مسلمانوں نے جذبات میں آکر یہاں کے مقامی ہندووں کو چھریوں تلواروں سے مارنا شروع کردیا ، تب اس وقت کے لیویز رسالدار حاجی ملک محمد دین ترین مرحوم نے پشین مرکزی چوک کے قریب پرانا بازار میں اس مندر کے سامنے اپنی بندوق نکال کر سب فسادیوں کو للکار کرخبردار کیا کہ ہندووں کو اگر کسی نے ہاتھ بھی لگایا یا ظلم کیا تو انجام برا ہوگا ، تب تمام ہندووں کو اس مندر میں شہرڑن یعنی پناہ دی گی اور

2

ستمبر1945 میں سرکاری پروٹوکول کی گاڑی میں بحفاظت کویٹہ پہنچادیا گیا، یہاں شہر میں ہمارے پرانی زمین جس کو ہم نے کلی غرشیان کے سید پر فروخت کردی تھی اس میں مجھے یاد ہے ہندووں کے لیے ایک ہندو سوز گنج منڈی میں بنا ہوا تھا جہاں ہندو دھرم کے باسی اپنے مرنے والے چیتا آگ میں جلایا کرتے تھے ، دوسری طرف مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس مندر میں آج سے 30 سال پہلے پشین کے سب سے ممتاز عالم دین اور مولوی محمد طاہر مرحوم کے استاد مولوی محمد حسن مرحوم کا یہاں مدرسہ ہوا کرتا تھا ، اور میں وہاں سپارہ پڑنے جاتا تھا ، مگر آج تیس سال بعد جب میں اپنی پرانی یادیں تازہ کرنے واپس گیا، تو یہ دیکھ کر دکھ ہوا کہ پشین کے ہندو دھرم کا یہ قدیم لکشمی مندر اور مولوی

4

محمد حسن مرحوم کا مدرسہ ایک ٹریکٹر گیراج اور خراد بن گیا ، یہ جایداد مرحوم تاج آغا کی ہے جس کا خاندان کویٹہ میں آباد ہے ، افسوس اس تاریخی ورثہ کو تباہ کیا جارہا ہے اسے فرعون کی ممی لاش ، اسے اہرام مصر اسے مدین قوم ثمود قوم عاد کے آثار کی طرح تاریخ میں نی نسل کے لیے بطور عبرت کدہ محفوظ کرنا چاہے ، پشین کے کچھ آفیسران کا محکمہ آثار قدیمہ حکومت بلوچستان میں ملازمت بھی ہے انہیں یہ احساس ہونا چاہے ، تاریخ میں پہلی بار یہ تصاویر اور یہ پوسٹ آپ دیکھ رہے ہیں جسے میں( نقیب ہیکل زی ) نے جاکر خود بنای ، ورنہ یہاں تو تاریخی مقامات سے کھلواڑ ہورہا ہے ، میں حکومت سے اور تاج آغا کے بیٹوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس قومی ورثے کی آنے والی نسلوں کی خاطر

6

حفاظت کی جایے ، ضلعی انتظامیہ اس کی دیکھ پال کرے ، اسے پشین میں ایک میوزیم کا درجہ دے۔۔۔ پشین میں اب کوی ہندو نہیں رہتا کیونکہ تقسیم کے بعد ہندو مسلم فسادات کا ریکشن سب سے زیادہ پشین میں دیکھنے کو ملا ، مجھے یاد ہے پشین کا ایک مشہور حلوای نے (جس کا نام میں لینا نہیں چاہتا کیونکہ اس کے خاندان کے لوگ ناراض ہوجاینگے ) بتایا کہ جب فسادات شروع تو میرے پاس نہ نوکری تھی نہ گھر تھا بس بیوی بچے اور میں پریشان تب میں نے چھری اٹھای اور پشین شہر کے وسط میں واقع ایک ہندو بنے جو حلوای بھی تھا کے گھر گھس گیا ، وہ لوگ ڈر کے مارے آگ کی انگیٹی کے لیے دیوار میں بناے گے سوراخ میں چھپ گیے میں ادھر گیا اور زور سے اللہ اکبر کہہ کران کو ذبح کرنے

7

ہی والا تھا کہ ہندو بنے نے کہا ارے مسلمان مجھے حلال کرکے کیا ملے گا میری جان بخش دو میرے بچوں کو چھوڑ دو ، میں تمہیں ایک مٹکا بھرا پیسے دیتا ہوں ، میرا مکان لے لو میرا حلوای کا دکان لے لو،، لیکن میں نہیں مانا کہ اسی دوران لیویز آفیسر اور علاقے کا ملک حاجی ملک محمد دین ترین مرحوم کو پتہ چلا اور اس نے آکر ان کو چھوڑا لیا، ورنہ میرا جہاد تو پکا تھا ، مجھے یاد ہے آج سے 25سال پہلے ہم جس گھر میں رہتے ہیں اس کی دیوار ہم نے توڑ دی اور اسے پکا بنانے کے لیے دیوار کے اندر ایک چمپیلی کا درخت عین دیوار کے آر پار لگی تھی جو دیوار اور درخت دونوں ایک ساتھ خوبصورت لگ رہے تھے ، دیوار تو مزدور توڑ گیے مگر درخت نکالنے میں دو دن لگے ، اس درخت کے نیچے مجھے متحدہ ہندوستان کے وقت کے اور مغل حکمرانوں کے وقت کے سکے ملے جو قیمتی بھی تھے جب کہ درخت کے نیچے ایک بھکوان کی مورتی ملی، جو اس وقت میری کم عمری کے سبب سمجھ سے بالاتر تھی ، میں اعتراف کرنے پر مجبور ہوں کہ آج بھی ہمارا خاندان جن گھروں میں رہتا ہے ، یہ پرانے زمانے میں ہندووں کی جایداد تھی ۔۔۔ پشین میں اس وقت مسلمانوں کے علاوہ عیسای بھی رہتے اور بستے ہیں اور سب برادرانہ تعلقات کی بناء پر ہنسی خوشی زندگی بسر کررہے ہیں ، یہاں عیسایوں کے لیے اپنا الگ قبرستان اور کالونی ہے، مگر ہندووں پر جو ظلم پشین میں ہوا اس کی مثال پورے بلوچستان میں نہیں ملتی ، پشین کے ہندو بعد میں کویٹہ ، چمن ژوب اور ڈیرہ بگٹی اور سبی چلے گیے، مگر پشین میں یہ ایک مندر چھوڑ گیے جسے اب پشین میں ایک تاریخی آثار قدیمہ کے طور پر میوزیم عجایب خانہ بنانا چاہیے۔۔۔

Leave a comment